پوچھتے ہو میں  کیسی ہوں ؟

اپنی تحریروں جیسی ہوں

 

الجھی ہوئی اور مبہم سی

ہاتھوں کی لکیروں جیسی ہوں

 

روتے ہوئے جو ہنس پڑتی ہیں

ان پرنم آنکھوں جیسی ہے


بے ساختہ ہے گم گشتہ ہے

موجوں کی روانی جیسی ہوں 


عیاں ہو کر بھی مخفی ہوں 

سیپ کے موتی جیسی ہوں

 

سب سے ملکر بھی رہوں  جدا

رنگوں میں سیاہ رنگ جیسی ہوں 


جو بکھر کر فضا سوگوار کرے

ان قہقہوں کی صداؤں جیسی ہوں

 

خاموشی، تنہائی جس میں لازم ہو

زیست کے ان نصابوں جیسی ہوں


زمانے سے جو منکر ہیں

ان باغی رواجوں جیسی ہوں

 

سن نہ سکو گے چاہ کر بھی

زندگی کی اس دھن جیسی ہوں