ان سے الفت میں کوئی عہد نبھایا نہ گیا
فاصلہ  بڑھتا  رہا   اور  مٹایا   نہ  گیا

کس طرح یاد میں ہوتے ہیں شب و روز بسر
آپ  نے  پوچھا  نہیں  ہم  سے  بتایا  نہ گیا

مرحلے  ایسے بھی گزرے ترے دیوانوں پر
اپنی  بربادی  پہ ،  اک  اشک  بہایا  نہ گیا

لوگ تو لمحوں میں ہر بات بھلا دیتے ہیں 
ہم سے چہرہ ترا صدیوں میں بھلایا نہ گیا

سینے میں جلتا ہوا  تیری محبت کا  چراغ 
وقت کی آندھی و طوفاں سے بجھایا نہ گیا

جانے  کیا  جرم   ہوا  ہے  کہ مقدر  اپنا
ایسا  روٹھا  کہ  کبھی ہم سے منایا نہ گیا

کتنی عمروں کی مسافت سے ترے پاس آئی
اک قدم گل کی طرف تجھ سے بڑھایا نہ گیا